تحریک انصاف کے چیرمین اور سابق عمران خان کی گرفتاری کے دوسرے روز بھی ملک بھر میں پر تشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے ۔ پنجاب میں آج بھی میڈیکل کالجوں کے سوا باقی تعلیمی ادارے بند رہے ، حکومت کو مجبورا نویں جماعت کے باقی ماندہ امتحانات ملتوی کرنا پڑے ۔ نجی ٹرانسپورٹ تقریبا بند رہی ، بیشتر کاروباری مراکز اور کارخانے بند ہونے سے تاجر برادری اور عام عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ روزانہ اجرت پر کام کرنے والے محنت کش عوام مالی مشکلات کا شکار رہے ۔ شر پسند عناصر کی جانب سے توڑ پھوڑ کے واقعات کے خوف سے لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ۔ سارا دن بیشتر سڑکیں سنسان دکھائی دئیں ۔ پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ روکنے اور امن وامان کی صورتحال کنٹرول کرنے کے لئے حکومت کو اسلام آباد سمیت پنجاب اور کے پی کے میں فوج طلب کرنا پڑی ۔ عوام تاحال پریشان ہیں کہ وطن عزیز میں امن وامان کی صورتحال کب کنٹرول ہو گی اور زندگی معمول پر کب آئے گی ۔ ان دو دنوں میں پر تشدد واقعات سے جہاں عوام پریشان ہیں وہیں قومی اور حساس اداروں کی اہم تنصیبات کو اربوں روپے کا شدید نقصان بھی پہنچایا گیا ہے ۔
حکومت نے سی سی ٹی وی کیمروں اور خفیہ اداروں کی رپورٹس پر پر تشدد واقعات کے ذمہ داروں کا تعین کر لیا ہے اور سینکروں کی تعداد میں گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں ۔ ان عناصر کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات ہی درج نہیں کئے جا رہے بلکہ ان کے پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ میں بھی ان کے ملک دشمن سرگرمیوں کا اندراج کیا جا رہا ہے ۔ ایسے افراد آئیندہ غیر ملکی ویزہ حاصل کر سکیں گے نہ بیرون ملک ملازمت اور نہ غیر ملکی اداروں میں تعلیم جاری رکھ سکیں گے ۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے دیگر شعبوں کی طرح طالب علم بہت پریشان ہو رہے ہیں ۔ خصوصا پنجاب میں نویں جماعت کے بورڈ امتحانات کو ملتوی کیا جا رہا ہے جس سے طالب علم ذہنی دباو کا شکار ہو رہے ہیں ۔ میڈیکل کالجز تو کھلے رکھے گئے ہیں لیکن ایک طرف ان کالجوں کی انتظامیہ نے اپنی بسیں بند کر رکھی ہیں دوسری طرف انہیں پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں مل رہی ان حالات میں میڈیکل کالجوں کے طالب علموں کو اپنے کالجوں تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
اسپتالوں میں ایمرجنسی اور وارڈ میں تو شاکر موجود ہیں لیکن آوٹ ڈور میں آئے مریضوں کو بیشتر ڈاکٹر نہ ملنے کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہے ۔ سڑکوں پر ٹریفک کے خلل کی وجہ سے بعض اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے نہ پہنچنے سے اہم آپریشن ملتوی کئے جا رہے ہیں ۔ سرکاری و نجی اسپتالوں میں معمول کا چیک اپ کرانے والے مریض بھی پریشان دکھائی دے رہے ہیں ۔ بیشتر نجی ٹرانسپورٹ بند ہونے سے عوام کو انٹر سٹی اور انٹر پروفشنل آنے جانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں ۔
اسلام آباد میں تقریبا تمام غیر ملکی سفارتخانوں نے کام بند کر دیا ہے اور ویزروں کے اجراء کے سلسلہ میں انٹرویو کے لئے دی گئی تاریخ کو بھی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کیا جا رہا ہے ۔ میری اہلیہ اور میری ساس کو امریکی سفارتخانے نے ویزے کے لئے 11 مئی کو انٹرویو دینے کے لئے اسلام آباد طلب کیا ۔ اس مقصد کے لئے ہم نے آج 10 مئی کو لاہور سے اسلام آباد جانے کے لئے پہلے نجی ٹرانسپورٹ کیو کنٹ بس سروس میں ٹکٹ بک کرائی ۔نجی کمپنی نے پر تشدد واقعات کی بناء پر اسلام آباد جانے والی بس منسوخ کر دی ۔ پھر ہم نے گرین لائن ٹرین کے ذرئعے لاہور سے اسلام آباد جانے کی ٹکٹ بک کرائی ۔ میں اپنے بیٹے حسیب امین کے ساتھ انہیں لاہور اسٹیشن پر چھوڑنے گیا۔ میری اہلیہ اور ساس گرین لائن ٹرین میں سوار ہو گئیں ۔ ٹرین اپنے مقررہ وقت پر سہ پہر 3 بجکر 40 منٹ پر اسلام آباد کے لئے روانہ ہو گئی ۔ میں اور میرا بیٹا جونہی لاہور ریلوے اسٹیشن کے پارکنگ ایریا میں کھڑی اپنی کار میں بیٹھنے لگے تو میری بیٹی کا فون آیا کہ امریکی ایمبیسی نے انہیں ای میل کے ذریعے ابھی آگاہ کیا ہے کہ کل 11 مئی کو ہونے والا انٹرویو منسوخ کر دیا ہے نئی تاریخ کا اعلان وہ بعد میں کیا جائے گا ۔ اب میں نے ٹرین میں سوار اپنی اہلیہ کو ان کے موبائل فون پر فورا کیا کہ امریکی ایمبیسی نے انٹرویو منسوخ کر دیا ہے اس لئے اب آپ اسلام آباد نہ جائیں ۔ بیگم نے کہا کہ گرین لائن ٹرین ابھی لاہور سے نکل کر بادامی باغ اسٹیشن سے گزر رہی میں نے کہا کہ یہ نان اسٹاپ ٹرین ہے یہ راستے میں نہیں رکے گی میں نے مشورہ دیا کہ اگلا اسٹیشن شاہدرہ آ رہا ہے آپ ٹرین روکنے والی چین کھینچ کیں اور ٹرین سے اتر جائیں ۔ میری اہلیہ نے ایسا ہی کیا ۔ ٹرین عملے سے میری اہلیہ کو 2 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا جو انہوں نے موقع پر ہی ادا کر دیا۔ میری بیگم اور میری ساس شاہدرہ ریلوے اسٹیشن پر ہمارا انتظار کر رہی تھیں کہ کچھ ہی دیر میں ہم وہاں پہنچ گئے اور انہیں لیکر گھر واپس آئے ۔
پاکستان میں ہونے والے پر تشدد واقعات کے ںتیجے میں امریکی ایمبیسی کی جانب سے انٹرویو منسوخ یا ملتوی کرنے کے نتیجے میں مجھے اور میری فیملی کو اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا جس کا میں نے مختصر ا ذکر یہاں کیا ۔ ناجانے اس جیسے اور کتنے واقعات میں عوام کو ذہنی پریشانی کے ساتھ ساتھ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے ۔
روزانہ اجرت پر کام کرنے والے دیہاڑی دار مزدور بھی بہت پریشان ہیں ۔ انہیں بھی ان ہنگاموں کی وجہ سے روزگار نہیں مل رہا ۔ ہنگامے اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ یہ ہمارا اپنا پیارا وطن ہے یہاں کے عوام ۔ املاک اور تنصیبات کو نقصان پہنچانے سے کسی اور کا نہیں ہمارا اپنا نقصان ہو رہا ہے ۔ ہمارے بزرگوں نے پاکستان بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے ۔ پہلے ہی مغربی پاکستان ہم سے جدا ہو چکا ۔ آج ہمارا یہ وطن سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے ۔ ہم اپنا ملک چلانے کے لئے عالمی اداروں اور دوست ممالک سے مالی مدد مانگ مانگ کر تھک چکے ہیں ۔ دنیا ہمارا مذاق اڑا رہی ہے کہ یہ کیسا ایٹمی ملک ہے جس میں امن وامان نہیں ۔ معاشی و سیاسی استحکام نہیں ۔ روز بروز بڑھتی ہوئی منہ زور مہنگائی سے عوام کا جینا مشکل ہو تا جا رہا ہے ۔ یہ باتیں ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ ہم سب کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہئے ۔