دنیا میں پاکستان شائد واحد اسلامی ملک ہے جہاں دودھ اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء خالص ملنا ایک خواب ہے ۔ نقلی اور ملاوٹ والا دودھ اور دیگر اجناس میں گھی ، آئل ، مشروبات حتکہ بیکری مصنوعات بھی خالص نہیں ملتیں ۔ ملاوٹ کے خلاف شکایت لیکر پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈی جی جہانگیر انور کے پاس پہنچا تو میری آہ وبکاء سننے کے بعد کہنے لگے ۔
“ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لیکن یہاں دودھ اور خوراک میں ظلم کی حد تک ملاوٹ ہوتی ہے۔ اس پر شرم آنی چاہیے ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ انسانی نعشوں کو زیادہ دیر تک مخفوظ رکھنے کے لئے فارمولین نامی ایک کمیکل استعمال کیا جاتا ہے ۔گوالے فارمولین کیمیکل سمیت 22 دیگر کیمیکل ملا کر دودھ تیار کرتے ہیں ۔ ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی جہانگیر انور نے کہا کہ یہ جعلی اور کیمیکل سے تیار دودھ ہمارے دل ، گردے ،جگر اور دیگر کئی انسانی اعضاء کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔ “
ہوا یوں کہ میں نے اپنے گھر دودھ کی سپلائی کے لئے ایک گوالے کو ذمہ داری سونپ رکھی ہے ۔ میری فیملی کچھ روز سے گوالے کی طرف سے ملنے والے دودھ میں ملاوٹ کی شکایت کر رہی تھی ۔ لہذا میں نے دودھ کو پنجاب فوڈ اتھارٹی کی لیبارٹری سے چیک کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لئے میں دودھ لیکر پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ہیڈ آفس مسلم ٹاون لاہور پہنچا اور وہاں موجود لیبارٹری میں دودھ دے کر کہا کہ مجھے اس کی لیبارٹری رپورٹ چاہئے ۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ مجھے دودھ خالص مل رہا ہے یا ملاوٹ والا ۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے لیبارٹری میں تعینات ملازمین نے کہا کہ وہ دودھ کو دو طریقوں سے چیک کرتے ہیں ایک طریقہ فوری چیک کرکے اس کی فوری رپورٹ دینے کا ہے ۔ اس کی کوئی فیس نہیں یہ مفت طریقہ ہے ۔ جبکہ دوسرا طریقہ دودھ کے تفصیلی معائینہ کا ہے جس کی ایک ہزار روپے فیس ہے ۔ میں نے لیبارٹری حکام سے کہا کہ مجھے دودھ کی دونوں قسم کی لیبارٹری رپورٹ چاہئے ۔ اگلے روز مجھے دونوں رپورٹس ملیں تو پتہ چلا کہ گوالہ میرے گھر میں جو دودھ فراہم کر رہا ہے وہ خالص نہیں اس میں پانی کی ملاوٹ شامل ہے ۔ تاہم لیبارٹری رپورٹ میں اس دودھ میں کیمیکل شامل کرنے کے کوئی شواہد نہیں ملے ۔ دودھ کی یہ رپورٹس لیکر میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈی جی جہانگیر انور صاحب کو ملا ۔ اور گوالے کے خلاف ضابطے کی کاروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔
جہانگیر انور صاحب نے میرے ہاتھ میں اپنے گھر میں سپلائی کرنے والے دودھ کی رپورٹس دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا کہنے لگے کہ امین حفیظ صاحب جو کام آپ نے کیا ہے اگر ایسا ہی کام پاکستان کے تمام شہری بھی کرنے چل پریں اور ملاوٹ زدہ دودھ اور خوراک فراہم کرنے والوں کا بائیکاٹ کریں تو دودھ سمیت خوراک میں ملاوٹ کرنے والے ناکام اور عوام کامیاب ہو جائیں گے ۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی نے خوراک میں ملاوٹ کے خلاف عوام میں آگاہی مہم چلانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ عوام کو چاہیے کہ وہ دودھ سمیت ہر قسم کی خوراک میں ملاوٹ کے خلاف 1223 پر فوری شکایت کریں ۔ فوڈ اتھارٹی کا عملہ فوری پہنچ کر نہ صرف کاروائی کرے گا بلکہ ذمہ داروں کے خلاف ضابطے کی سخت کاروائی کرتے ہوئے ان کی دکانیں ، کاروبار کے مقام کو سیل کرے گا ۔ جرمانہ بھی کیا جائے گا اور سزا بھی دی جائے گی ۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی جہانگیر انور نے عوام سے کہا کہ اگر ان کے اردگرد کہیں کیمیکل والا جعلی دودھ تیار ہوتا ہے تو وہ فوڈ اتھارٹی کی ہیلپ لائن 1223 پر اطلاع دیں ۔ جعلی دودھ کی فیکٹری پکڑے جانے پر شکایت کندہ کو 50 ہزار روپے نقد انعام دیا جائے گا اور اس کا نام بھی صیغہ راز میں رکھا جائے گا
ڈی جی صاحب نے اپنے ادارے کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ 2013ء کے ایکٹ کی روشنی میں 2014ء میں فوڈ اتھارٹی قائم ہوئی ۔ ابتداء میں اس ادارے کا دائرہ اختیار صرف لاہور تک تھا۔ 2017ء میں اس کا دائرہ پنجاب بھر میں پھیلا دیا گیا ۔ ملاوٹ کے خلاف اپنے ادارے کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ گذشتہ 6 برسوں میں ملاوٹ میں ملوث افراد سے ایک ارب 50 کروڑ روپے کی رقم جرمانہ کی مد میں وصول کی گئی ۔سیکڑوں افراد کے خلاف مقدمات درج کرائے گئے ۔اور ہزاروں من جعلی دودھ ضائع کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ صرف لاہور میں دودھ دہی کی 17 ہزار دکانیں ہیں ۔ اور وہ روزانہ دودھ دہی کی 1700 دکانیں چیک کرتے ہیں ۔ انہوں نے مذید کہا کہ ان کا عملہ عید اور ہفتہ وار چھٹیوں میں بھی کام کرتا ہے ۔لیکن ملاوٹ مافیاء ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ۔ یہ مافیا اسی وقت ختم ہو گا جب ملاوٹ اور کیمیکل ملا دودھ خریدنے کے خلاف عوام سراپا احتجاج بن جائے گی اور ملاوٹ مافیا کا بائیکاٹ کرے گی ۔
جب میں نے پوچھا کہ دنیا کے جن ممالک میں لوگوں کو دودھ اور خوراک خالص ملتی ہے وہاں کی حکومت قوانین پر سختی سے عمل درآمد کراتی ہے جس سے کسی کو دوبارہ خوراک میں ملاوٹ کرنے کی جرآت نہیں ہوتی ۔ ہمارے ہاں جسے ملاوٹ کے الزام میں پکڑا جاتا ہے یا اس کی دکان سیل کی جاتی ہے ۔ چند روز میں وہ رہا ہو کر آ جاتا ہے اس کی دکان بھی کھل جاتی ہے اور وہ شخص پہلے سے زیادہ ملاوٹ والا دودھ اور دیگر خوراک میں ملاوٹ کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے اور فوڈ اتھارٹی سمیت دیگر متعلقہ سرکاری ادارے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ ڈی جی فوڈ اتھارٹی جہانگیر انور نے کہا کہ ان کا اختیار ملاوٹ مافیا کے خلاف مسلسل کاروائی کرنا ہے ۔ انہیں رہا کرنا اور کاروبار کی دوبارہ اجازت دینا دیگر اداروں کا کام ہے ۔ وہ اپنے ادارے کی حد تک ملاوٹ کے خلاف اپنے حصے کی شمع جلاتے رہتے ہیں ۔
جہانگیر انور نے کہا کہ انہوں نے دکانوں پر ڈسپوزیبل برتن استعمال کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔ کھانا یا فروٹ تیار کرنے والے اہلکاروں کا بیماریوں سے پاک ہیلتھ کارڈ کے اجراء کا بھی حکم دیا ہے ۔ آئیندھ کوئی بیمار انسان خوراک کی تیاری کا حصہ نہیں بن سکے گا۔ غریب کارڈ کسی کو کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ کھانے کی تیاری والی جگہ کی صفائی یقینی بنائی جائے گی ۔ تاکہ عوام کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بہتر خوراک فراہم کی جا سکے ۔