آئی ایم ایف سے مسلسل آنکھ مچولی کھیلنے اور بالآخر کسی حتمی نتیجے پر پہنچے اور معاہدہ کئے بغیر ہی پی ڈی ایم حکومت نے نئے مالی سال 24 ۔ 2023ء کا بجٹ پیش کر دیا ۔ 144 کھرب 60 ارب کے اس بجٹ میں 69 کھرب 25 ارب کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے ۔ بجٹ میں ساڈھے 11 کھرب کا تاریخی ترقیاتی پروگرام دے کر ٹیکس وصولی کا ہدف 92 کھرب مقرر کیا گیا ہے ۔ وفاقی وزیر خزانہ ومالیات سینٹر محمد اسحاق ڈار نے مجموعی طور پر چھٹا اور موجودہ حکومت کا آخری بجٹ پیش کر دیا ۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ، منہ زور بڑھتی ہوئی بے لگام مہنگائی ، بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضوں اور زر مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی اور نئے انتخابات بھی سر پر منڈلا رہے ہوں تو ایسے حالات میں موجودہ حکومت نے اس بجٹ کے ذریعے کئی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشس کی ہے ۔ حکومت نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 سے 35 فیصد اضافہ اور پنشن میں ساڈھے 17 فیصد اضافہ کے ساتھ ساتھ مزدور کی کم ازکم اجرت 32 ہزار روپے مقرر کرکے عوام کے دل جینے کی کوشش کی ہے ۔ اور یہ خوشخبری بھی سنائی ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط من وعن ماں لی گئی ہیں اب معاہدے میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔ انشاء اللہ آئی ایم ایف سے معاہدہ رواں ماہ ہونے کی توقع ہے ۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے وقت نواز شریف کی حکومت 17 ۔12016ء اور تحریک انصاف کی حکومت۔ 22۔ 2018ء کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے مذکورہ دور میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 1۔ 6 فیصد پر پہنچ چکی تھی ۔ اور افراط زر کی شرح 4 فیصد تھی ۔ کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی میں سالانہ اوسطا اضافہ صرف 2 فیصد تھا اور زر مبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کی بلند ترین تاریخی ریکارڈ قائم کر چکے تھے ۔ پاکستان 2017ء میں دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا ۔ جو 2022ء میں تحریک انصاف کے دور میں گر کر 47 ویں نمبر پر آ گیا ۔ انہوں نے کہا کہ 2018ء میں غیر ملکی قرضہ 28 ہزار ارب روپے تھا جو اس وقت 59 ہزار ارب سے بھی بڑھ گیا ہے ۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا ۔ بجٹ کا تقریبا نصف حصہ 73 کھرب روپے قرض اور سود کی ادائیگیوں پر خرچ ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ مہنگائی اور معاشی مشکلات کی مکمل ذمہ داری تحریک انصاف حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔
وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ میں دفاع کے لئے 1804 ارب اور سول انتظامیہ کے لئے 714 ارب روپے مختص کئے ۔ وفاقی سرکاری ملازمین کی پنشن کے لئے 761 ارب روپے مختص کئے گئے ۔ ان میں سے 563 ارب روپے فوج کے تیٹائرڈ اہلکاروں کے لئے جبکہ 188 ارب روپے سول ملازمین کی پنشن کے لئے رکھے گئے ہیں ۔ بجٹ میں سپریم کورٹ کے لئے 3 ارب ساڈھے 55 کروڑ روپے مختص کئے گئے ۔ ملک میں نئے انتخابات کے انعقاد کے لئے 42 ارب 41 کروڑ روپے جبکہ سیکورٹی کے لئے 15 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں 450 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ تعلیم کے لئے 81 ارب 9 کروڑ جبکہ صحت کے لئے 22 ارب 8 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ لیپ ٹاپ اسکیم کے لئے 10 ارب، کھیلوں کی ترقی کے لئے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔
وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ پوری دنیا میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے ۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام آدمی کا جینا محال کر دیا ہے ۔ سیاسی انتشار سے ملک کے اندر سرمایہ کاری رک گئی ہے ۔صنعتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں ۔ سرکاری ملازم ہو یا نجی اداروں کے ملازم دونوں طبقے ہی مہنگائی کا شکار ہیں ۔ حکومت نے گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد ، گریڈ 17 سے 22 تک کے سرکاری آفیسرز کی تنخواہ میں 30 فیصد اور پنشن میں ساڈھے 17 فیصد اضافہ کرکے انہیں تو خوش کر دیا ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نجی اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لئے ان اداروں کے مالکان پر زور دے گی ؟ اور کیا مزدور کی کم از کم اجرت 32 ہزار روپے مقرر کرنے کے اپنے ہی فیصلے پر من وعن عمل درآمد کرائے گی ۔ یقینا نہیں ۔
حکومت ہمیشہ نجی اداروں کے ملازمین کو نجی اداروں کے مالکان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے اور ڈرتی ہے کہ اگر اس نے نجی اداروں کے ملازمین کے حقوق کی بات کی تو وہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ ایسا بالکل نہیں ۔ میرا ماننا ہے کہ اگر حکومت دل سے چاہے تو وہ نجی اداروں کے مالکان سے تنخواہوں میں اضافے کے فیصلے پر آسانی سے عمل درآمد کرا سکتی ہے ۔ اگر موجودہ حکومت یہ نیک کام کر جائے تو سرکاری ملازمین کی طرح کروڑوں نجی اداروں کے ملازمین بھی حکومت کو دعائیں دیں گے ۔ مجھے امید ہے کہ اس بار حکومت سرکاری ملازمین کی طرح نجی اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافے کے لئے اپنا مثبت کردار ضرور ادا کرے گی ۔