آج 14 مئی 2023ء بروز اتوار ہے ۔ میں معمول کے مطابق صبح سویرے اٹھا ، نماز پڑھ کر یوگا کرنے چلا گیا ۔ گھر واپس آتے ہی باتھ روم جاتے ہوئے بیگم سے کہا کہ ناشتہ تیار کر دو مجھے جلدی جانا ہے ۔ بیگم نے پوچھا آج اتوار ہے اور چھٹی کا دن ہے آپ صبح سویرے کہاں جانے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ میں نے کہا کہ آج اتوار ضرور ہے اور چھٹی کا دن بھی ہے لیکن کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آج 14 مئی بھی یے ۔ پاکستان کے متفقہ آئین 1973ء اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق آج پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے سلسلہ میں پولنگ کا دن ہے ۔ میں پولنگ اسٹیشن اپنا حق رائے دہی یعنی اپنا ووٹ ڈالنے جانا ہے ۔ بیگم نے سوالیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھا جیسے کچھ کہنا چاہ رہی ہوں لیکن کچھ کہے بغیر باجی سے کہنے لگیں کہ امین صاحب کا ناشتہ تیار کر دیں انہوں نے جلدی جانا ہے ۔ میں تیار ہوکر ڈائینگ ٹیبل پر آیا ناشتے کے دوران بیگم سے پوچھا کہ انتخابات کے سلسلہ میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے ووٹر سلپ آئی ہو گی وہ مجھے دے دیں میں نے پولنگ اسٹیشن ووٹ ڈالنے جانا ہے ۔ بیگم ایک بار پھر مجھے سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی آپ کونسے انتخابات اور پولنگ کی بات کر رہے ہیں ۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ آج 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ مقرر ہے ۔اس لئے مجھے اپنا ووٹ ڈالنے جانا ہے ۔ بیگم نے کہا کہ آج انتخابات نہیں ہو رہے ۔ آپ گھر بیٹھ کر آرام کریں ۔ میں نے بیگم کی بات نہیں مانی اور گھر سے نکل کر جوہر ٹاون میں واقع اسپیشل افراد کے سکول کی طرف چل پڑا جہاں انتخابات کے حوالے سے ہمیشہ میرا پولنگ اسٹیشن بنتا ہے ۔
گورنمنٹ اسپیشل ایجوکیشن سکول جوہر ٹاون میرے گھر سے تھوڑی دور ہے گھر سے سکول جاتے ہوئے مجھے راستے میں ہر طرف خاموشی کا راج دکھائی دیا ۔ سکول کے قریب مجھے کسی سیاسی جماعت کا انتخابی کیمپ دکھائی دیا نہ ہی کوئی سیاسی سرگرمی نظر آئی ۔سکول کے مرکزی گیٹ پر تالہ لگا دیکھا ۔ چوکیدار سے پوچھا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے آج یہاں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے سلسلہ میں پولنگ ہونا تھی اس لئے میں اپنا ووٹ ڈالنے آیا ہوں ۔ چوکیدار نے میری طرف حیرت سے دیکھا اور کہنے لگا باو جی آپ کون سے انتخابات اور پولنگ کی بات کر رہے ہیں آج تو اتوار ہےاور سکول میں چھٹی ہے اس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہیں ۔
اس صورتحال میں میں مال روڈ لاہور پر واقع لاہور ہائی کورٹ سے ملحقہ سپریم کورٹ رجسٹری کی عمارت کی طرف چل پڑا ۔ سوچا سپریم کورٹ سے جا کر پوچھتا ہوں کہ آپ کے حکم سے آج 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی پولنگ ہونا تھی وہ کیوں نہیں ہو رہی ۔ آخر کس نے سپریم کورٹ کے حکم کی حکم عدولی کی ہے ۔ جب میں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کی عمارت کے باہر پہنچا تو مرکزی عمارت کا دروازہ بند تھا ۔ سیکورٹی پر معمور پولیس اہلکار سے پوچھا کہ اعلی عدلیہ میں اس وقت کوئی جج صاحب یا عدلیہ کا کوئی آفیسر موجود ہے تو سیکورٹی اہلکار نے کہا کہ صاحب آج اتوار ہے اور عدالتیں بند ہیں ۔ عمارت کے اندر کوئی نہیں صرف ہم سیکورٹی اہلکار اپنی ڈیوٹی پر موجود ہیں ۔
اب میں نے سوچا کہ مجھے صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر جاکر پوچھنا چاہئے کہ سپریم کورٹ کے حکم سے آپ نے آج 14 مئی کو پولنگ کرانا تھی ۔ لیکن پولنگ اسٹیشن بند ہیں اور وہاں پولنگ عملہ پولنگ سامان کے ساتھ موجود نہیں ۔ لہذا جب میں صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب کے دفتر پہنچا تو یہاں بھی وہی صورتحال دیکھی جو جوہرٹاون میں واقع اپنے پولنگ اسٹیشن اور سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کی عمارت پر دیکھی ۔ کمیشن کے بڑے سے لوہے کے دروازے کو کھٹکھٹایا تو اندر سے سفید لباس میں موجود ایک صاحب آئے ۔ میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے الیکشن کمیشن کے دفتر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی تو مجھے اہلکار نے کہا کہ امین صاحب میں آپ کو جانتا ہوں ۔ میں نے الیکشن کمیشن کے کسی ذمہ دار سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو مجھے وہی جواب ملا جو پولنگ اسٹیشن اور سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پر سیکورٹی اہلکار نے دیا ۔ کہنے لگا کہ امین حفیظ صاحب آج اتوار ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ اتوار کو الیکشن کمیشن کا دفتر بند ہوتا ہے ۔ عمارت میں کوئی آفیسر یا اہلکار موجود نہیں ۔ گیٹ پر موجود سفید لباس میں موجود نوجوان نے کہا کہ جناب مجھے زیادہ تو معلوم نہیں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ آج 14 مئی بروز اتوار کو پنجاب اسمبلی کے جو انتخابات ہونے تھے وہ آج نہیں ہو رہے ۔ کیونکہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانے کے لئے حکومت نے پیسے دیئے نہ ہی سیکورٹی اہلکار ۔ اس لئے آپ آرام سے گھر جائیں اور اتوار کا دن بچوں کے ساتھ خوشی سے گزاریں ۔
پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری تھی کہ وہ پرامن اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کے ساتھ مالی اور انتظامی تعاون کرتے ۔ اس سلسلہ میں جب میں پنجاب سول سیکرٹریٹ پہنچا تو وہاں بھی سیکرٹریٹ بند ہونے کی وجہ سے نگہران وزیر اعلی ، چیف سیکرٹری ، آئی جی پولیس یا کسی ذمہ دار سے بات نہ ہو سکی ۔
اب ایک طرف آج کے دن یعنی 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے سلسلہ میں سپریم کورٹ کا واضع حکم موجود ہے جو تاحال تبدیل نہیں ہوا ۔ تو دوسری طرف الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لئے پولنگ نہیں کرائی ۔ ایسے میں امین حفیظ اور مجھ سے ہزاروں لوگ جو آج پولنگ ڈے سمجھ کر گھر سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے نکلے وہ جائیں تو جائیں کہاں ۔
ان تمام حالات و واقعات میں کی روشنی میں میں یہ سوچ رہا ہوں کہ آج 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات نہ ہونے کا ذمہ دار کون ہے ۔ کیا وہ ادارہ ( سپریم کورٹ آف پاکستان ) جس نے آئین پاکستان کے مطابق اسمبلی ٹوٹنے کے 90 روز میں انتخابات کرانے کی تاریخ مقرر کی ۔ یا وہ ادارہ (الیکشن کمیشن آف پاکستان ) جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں انتخابات کا انعقاد کرتا ۔ یا وفاقی و صوبائی حکومت اور ادارے جنہوں نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کو منعقد کرنے کے لئے مطلوبہ رقم اور سیکورٹی اہلکار دینا تھے اور نہیں دیئے ۔
یہ وہ تمام سوالات ہیں جو میرے ذہین میں گردش کر رہے ہیں ۔ لیکن میں بطور صحافی ان تمام سوالات کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ۔ ہاں البتہ آج مجھے سپریم کورٹ ، الیکشن کمیشن اور وفاقی و صوبائی حکومت یا ان کے ترجمان مل جاتے تو میں ان سے ان سوالات کے جواب ضرور پوچھتا ۔ بہر حال انہی سوالات کا جواب لینے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے 15 مئی کو سب ذمہ داران کو اسلام آباد طلب کر رکھا ہے ۔ کیس کی سماعت کے بعد اعلی عدلیہ اس بات کا تعین ضرور کرے گی کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات منعقد نہ کرانے کا اصل ذمہ دار کون ہے اور انشاء اللہ ذمہ داران کو سزا ضرور سنائی جائے گی ۔