سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے 11 مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے اقدام کو غلط اور غیر قانونی قرار دے کر انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اور عمران خان کو ہدایت دی کہ وہ 12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کریں ۔یاد رہے کہ رینجرز حکام نے 9 مئی کو نیب کی جانب سے القادر ٹرسٹ میں 60 ارب کی مبینہ کرپشن کے الزام میں جاری گرفتاری نوٹس پر انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا تھا ۔جس کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ جس میں سرکاری ونجی املاک ۔حساس اداروں کے دفاتر اور رہائش گاہوں سمیت پولیس کی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا ۔ جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماوں سمیت سینکروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ۔پی ٹی آئی کی قیادت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی ۔ جس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کے دوران گرفتار عمران خان کو ایک گھنٹے میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ حکومت نے عدالت کے حکم پر ریمانڈ پر گرفتار عمران خان کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے روبرو پیش کیا ۔ تو چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کو دیکھتے کہا کہ انہیں آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی اور کہا کہ آپ جو کہنا چاہتے ہیں کہیں ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں ۔ عمران خان نے کہا کہ وہ 9 مئی کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تو بائیومیٹرک کے لئے مخصوض کمرے میں موجود تھے کہ رینجرز حکام کمرے کے شیشے توڑ کر اندر داخل ہوئے اور مجھے گرفتار کر لیا۔ رینجرز سے گرفتاری کا نوٹس مانگا تو انہوں نے نہ دکھایا اور مجھے احاطہ عدالت سے اغوا کرکے لے گئے۔ اغوا کے بعد مجھے علم نہیں کہ ملک میں کیا ہوتا رہا ۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی انتشار کی بات نہیں کی۔ میری پارٹی کی بنیاد ہی انصاف اور امن پر قائم ہے۔ عمران خان نے کہا کہ انتشار وہ نہیں چاہتے ہیں بلکہ وہ لوگ انتشار کے ذمہ دار ہیں جو اس ملک میں انتخابات نہیں کرانا چاہتے ۔ عمران خان نے کہا کہ حکومت نے ان پر 145 مقدمات درج کرکے انہیں کنفیوز کر دیا ہے ۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا کہ عمران خان کو احاطہ عدالت سے غلط اور غیر قانونی طریقے سے گرفتار کیا گیا۔ جس سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ۔عدالت نے عمران خان کو رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آپ 12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ پیش ہوں اور تب تک پولیس کی نگرانی میں پولیس گیسٹ ہاوس میں ہی رہیں اور عدالت پیش ہونے تک کوئی آپ کو گرفتار نہ کرے۔ کیونکہ آپ 12 مئی تک سپریم کورٹ کے مہمان ہیں ۔ عدالت نے قرار دیا کہ ان کی رہائی کا حکم القادر ٹرسٹ کے الزامات اور کاروائی پر اثر انداز نہیں ہو گا۔ سپریم کورٹ نے عمران خان پر زور دیا کہ وہ معاشرے میں امن کے لئے مذاکرات کا آغاز کریں کیونکہ دونوں طرف کا بیانیہ شدت اختیار کر چکا ہے ۔
تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ثابت ہو گیا کہ عمران خان فتنے کے سہولت کار موجود ہیں ۔ اور اس نے گرفتاری کے بعد اپنے مخصوص ٹولے کے ذریعے ملک بھر میں پر تشدد واقعات کرائے ۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ عدالتیں عمران خان کو رہا کرتی رہیں وہ اس فتنے اور ملک دشمن کو گرفتار کرتے رہیں گے ۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کے حوالے سے 60 ارب کی کرپشن کا کیس ہے ۔ ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر رہائی کرنے کا حکم قانون ، آئیں اور پارلیمان کی توہین ہے ۔ سپریم کورٹ میں یہ پٹیشن بنتی ہی نہیں تھی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا طارق رحیم کو پہلے کیسے پتہ چل گیا تھا۔ عطا تارڑ نے کہا کہ یہ سب سہولت کاروں کا ٹولہ ہے جو عمران خان کی سہولت کاری کر رہا ہے ۔
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء اور وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے تحریک انصاف پر پابندی کی سوچ کی مخالفت کر دی ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ سیاست کرنا چاہتی ہے یا دہشت گردی ۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پر تشدد واقعات کی بنیاد پر انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہے ۔ ماہرین اور عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ وسیع تر ملکی اور معیشت کے مفاد میں فوری طور پر انٹر نیٹ سروس بحال کی جائے ۔ ملک میں امن وامان کیا جائے ۔ تعلیمی ادارے کھولے جائیں اور ملتوی کئے جانے والے نویں جماعت کے امتحانات کا نیا شیڈول جلد جاری کیا جائے ۔