نماز ، روزہ ، حج اور زکواۃ اسلام کے بنیادی ارکان ہیں ۔ نماز ، روزہ اور زکواۃ تو ہر مسلمان اپنے حساب اور بساط کے مطابق ادا کرتا رہتا ہے ۔ لیکن حج بیت اللہ کی تڑپ تو ہر امیر اور غریب رکھتا ہے ۔ اگرچہ اسلام کا یہ رکن (حج ) صرف صاحب استطاعت لوگوں پر فرض ہے اور اگر غریب آدمی مالی مشکلات کی وجہ سے حج سے محروم رہ جائے تو اس پر جواب لازم نہیں ۔
سال 2018ء تک عوام تقریبا ساڈھے چار لاکھ روپے تک کی رقم سے حج کی سعادت حاصل کر لیتے تھے۔ لیکن اب رواں سال 2023ء میں عوام کو سرکاری حج اسکیم کے تحت 11 لاکھ 75 ہزار روپے فی کس جمع کرانے کا حکم دیا گیا ۔ اس رقم میں اگرچہ جہاز کا ٹکٹ ، رہائش ، تین وقت کا کھانا ۔ مکہ مدینہ کے درمیان سفر کی سہولت اور زیارتوں کرنا شامل ہے لیکن قربانی کی رقم شامل نہیں ۔یہ رقم حجاج کرام نے سعودی عرب میں خود ادا کرنی ہے ۔ جو پاکستانی کرنسی میں کم از کم 65 ہزار سے 75 ہزار روپے بنتی ہے ۔ مطلب ایک حاجی کو عملا تقریبا ساڈھے بارہ لاکھ روپے حج کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑیں گا ۔ اگر حجاج کرام کو 40 سے 45 دن سعودی عرب قیام کے دوران مقررہ خوراک کے علاوہ کچھ مذید کھانے پینے کا دل کرے تو وہ اخراجات الگ ہوں گے ۔رشتے داروں کے لئے کھجوروں سمیت دیگر تحائف لانا بھی فیملی پریشر کا حصہ ہوتا ہے ایسے میں ایک حاجی کو کم از کم مذید ایک لاکھ روپے کی اضافی رقم کے ساتھ حج پر عملا ساڈھے 13 لاکھ روپے خرچ کرنا پڑیں گے ۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے وہاں امیر جب چاہیں وہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر حج کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں ۔ لیکن مسئلہ تو اس عوام کا ہے جنہیں اپنے روزمرہ گھریلو اخراجات مشکل سے پورا کرتے ہیں وہ روز بروز بڑھتی ہوئی بے لگام مہنگائی کے دور میں حج کی آرزو رکھنے کے باوجود حج کے لئے مطلوبہ رقم جمع نہیں کر سکتے یا وہ اولاد جو کمانا شروع کر دیتی ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کو ان کی صحت اور تندرستی کے ہوتے ہوئے انہیں حج کی سعادت کے لئے بھیجیں ۔ ان کے لئے اب سرکاری سکیم میں حج کے لئے رقم اکھٹی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا جا رہا ہے ۔ پرائیویٹ حج تو ان کی پہنچ سے پہلے ہی دور ہو چکا تھا اب سرکاری اسکیم بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ کیونکہ اگر کوئی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا انسان اپنے والدین یا ان میں سے حیات ایک فرد کو حج پر بھیجنا چاہے تو اس مقصد کے لئے اس کی جوان اولاد میں سے کسی ایک کا ساتھ جانا اس لئے ضروری ہے کہ وہ والدین کا خیال رکھ سکے اور انہیں مناسک حج کی ادائیگی میں ان کی مدد کر سکے ۔ اس طرح کم از کم دو یا تین افراد حج کے لئے تیار ہوں تو کم از کم 26 لاکھ سے 40 لاکھ روپے درکار ہوں گے ۔ اب اتنی بڑی رقم کا انتظام کرنا غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے انسان کے لئے ممکن ہی نہیں ناممکن ہے ۔
میں یہاں اپنے علاقے کے ایک بزرگ کی بات بتانا چاہتا ہوں جو جب بھی مجھے ملتے ہیں پریشان دکھائی دیتے ہیں ۔ ایک دن میں نے ان سے ان کی پریشانی دریافت کرنا چاہی تو کہنے لگے کہ انہوں نے حج کرنے کی غرض سے اپنی پینشن اور بچوں سے ملنے والی ماہانہ رقم میں سے بچت کرکے تقریبا 5 لاکھ روپے جمع کئے ۔ پھر کورونا کی وجہ سے دو تین سال حج پر جانے کی اجازت نہ مل سکی ۔ اب حکومت نے حج کے لئے ساڈھے چار لاکھ روپے کی بجائے اکھٹے 11 لاکھ 75 ہزار روپے مقرر کر دیئے ۔ بابا جی نے کہا کہ بیٹا اب میری جمع پونجی کی ساری رقم 11 لاکھ روپے سے بہت کم تھی ۔ اس لئے اس سال درخواست نہ دے سکا اور اب مجھے لگتا ہے کہ میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کئے بغیر ہی مر جاونگا ۔ اب بابا جی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ان کی آنکھیں اشکبار ہونے لگی ، کہتے ہیں کہ سنا تھا کہ حج کا بلاوا انہیں آتا ہے جن کے دل میں اللہ کے گھر جانے کی تڑپ ہوتی ہے ۔ بابا جی نے کہا کہ اللہ کا گھر اور نبی پاک کا روزہ دیکھنے کی تڑپ مجھ میں زیادہ کس کے دل میں ہو گی ۔ میں اپنی حیثیت کے مطابق وسائل اکھٹے کرنے کے باوجود حج پر نہیں جا سکا ۔ ہو سکتا ہے کہ مجھ سے زندگی کے کسی موڑ پر کوئی غلطی ہوئی ہو اللہ تعالی مجھے معاف فرمائیں ۔
اس سال حکومت پاکستان کو سعودی عرب سے تقریبا ایک لاکھ 79 ہزار افراد کے لئے حج کوٹہ ملا ۔ جسے سرکاری اور نجی کوٹے میں ففٹی ففٹی تقسیم کر دیا گیا ۔ سرکاری کوٹے کے تحت حکومت نے عوام سے پاکستانی کرنسی اور ڈالر اسکیم کے تحت درخواستیں طلب کیں ۔ تو یہ درخواستیں حج کوٹے کے مقابلے میں کم موصول ہوئیں ۔ جس کے نتیجے میں حکومت نے قرعہ اندازی کرنے کی بجائے تمام درخواست دھندہ کو حج کی ادائیگی کے لئے اہل قرار دے دیا۔ اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وفاقی کابینہ نے تقریبا 8 ہزار اضافی حج کوٹہ سعودی عرب کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور کہا کہ اگر یہ کوٹہ واپس نہ کرتے تو حکومت پاکستان کو حاصل کی گئی رہائش گاہوں سمیت دیگر اخراجات کی مد میں 24 ملیں ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا پڑتا ۔ حکومت پاکستان کا ماننا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ڈالر کی قدر میں کمی کی وجہ سے درخواستیں کم موصول ہوئی ہیں ۔
یہ تو سرکاری حج اسکیم کی کہانی ہے ۔ جس میں حکومت کم درخواستوں کی وصولی کے باعث حج کوٹہ واپس کرنے پر مجبور ہوئی ۔ابھی پرائیویٹ حج اسکیم کی باری ہے ۔ پرائیویٹ حج اسکیم چلانے والے حج آپریٹرز بھی مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں ۔
اس سال حکومتی سطح پر ایک اہم واقعہ رونما ہوا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور کار حادثے میں جاں بحق ہو گئے ۔ ان کا دعوی تھا کہ انہوں نے کرپشن کو رد کرتے ہوئے حجاج کرام کے لئے پہلی بار سعودی عرب میں بہترین سہولتوں کی فراہمی کا انتظام کیا ہے ۔ اب سابق وزیر مذہبی امور کی وفات کے بعد نئے وفاقی وزیر مذہبی امور اور جدہ میں تعینات ڈی جی حج اور ڈائریکٹر حج بھی نئے تعینات ہوئے ۔ وزیر سمیت دونوں آفیسرز کو حج کے فرائض کی ادائیگی کا تجربہ نہیں ۔ صرف وفاقی سیکرٹری مذہبی امور آفتاب دورانی اور ان کی ٹیم میں شامل کئی آفیسرز حج کے معاملات میں تجربہ کار ہیں ۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اس سال حج کے دوران پاکستانی حجاج کرام آسانی سے مناسک حج ادا کریں گے اور انہیں کم سےکم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ۔
وطن عزیز کے وہ خوش نصیب عوام جنہیں اس سال حج کی سعادت نصیب ہو رہی ہے دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے ۔حکومت اور نجی اداروں نے حجاج کرام کے لئے مختلف مقامات پر تربیتی کورسز شروع کر دیئے ہیں ۔ جس میں انہیں بتایا جا رہا ہے کہ وہ جہاز میں 32 کلو گرام تک کا بیگ لیجا سکتے ہیں اور انہیں7 کلوگرام کا دستی سامان بھی لیجانے کی اجازت ہو گی ۔ حجاج کرام کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے ساتھ سمارٹ موبائل فون ضرور لیکر جائیں کیونکہ ریاض الجنہ میں داخلے کا وقت موبائل ایپ کے ذریعے ہی ملے گا ۔ حجاج کرام اپنی ادویات اپنے ساتھ ضرور لیکر جائیں ۔ اور حفاظتی ٹیکے اور ویکسین ضرور لگوائیں ۔حکومت نے بینکوں کو حکم دیا ہے کہ وہ حاجی کیمپوں میں اپنے بینک کاونٹر سے حجاج کرام کو سرکاری ریٹ پر ریال فروخت کریں ۔
پاکستان میں مہنگائی اسی تناسب سے بڑھتی رہی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہونے سے پاکستانی روپے کی قدر کم ہوتے گئی تو آنے والے حج موجودہ رقم سے زیادہ مہنگے ہو جائیں گے پھر کیا ہو گا اللہ ہی بہتر جانتے ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں روز بروذ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ذمے دار ہمارے حکمران ، سیاستدان اور وہ ادارے ہیں ۔ اللہ تعالی پاکستان کے غریب اور متوسط طبقےسے تعلق رکھنے والے عوام پر اپنا فضل وکرم کرے اور حکمرانوں کو قومی خزانہ لوٹنے کی بجائے عوام کے وسیع تر مفاد اور ملکی تعمیر و ترقی اور استحکام میں اچھے فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین