مجھے آج پاکستانی فلم بول کا وہ ڈائیلاگ یاد آ رہا ہے ۔ جس میں اداکارہ پھانسی گھاٹ پر جانے سے پہلے میڈیا سے گفتگو میں اپنا آخری بیان ریکارڈ کراتی دکھائی دیتی ہے ۔ اداکارہ فلم میں قوم کے سامنے یہ سوال رکھتی ہے کہ کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلم کا یہ ڈائیلاگ مجھے آج اس لئے یاد آیا جب سابق وزیر اعلی پنجاب چوھدری پرویز الہی کو بار بار عدالت سے رہائی کا حکم ملنے کے بعد دوبارہ ایک دوسرے مقدمہ میں گرفتار کیا جاتا رہا ۔ اور بالآخر عدالت نے انہیں جسمانی ریمانڈ پر اینٹی کرپشن حکام کے حوالے کرنے کی بجائے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ۔
ایسا صرف سابق وزیر اعلی پنجاب چوھدری پرویز الہی کے ساتھ ہی نہیں ہوا ۔ پی ٹی آئی کے کئی گرفتار رہنماوں کے خلاف بھی ہو چکا ۔ ان میں چھوٹے بڑے رہنما ، موجودہ وسابق ارکان اسمبلی اور کئی دیگر رہنماء بھی شامل ہیں ۔ جنہیں پولیس اور مختلف سرکاری محکموں نے کرپشن اور اختیارات سے تجاوز سمیت دیگر قانون ہاتھ میں لینے جیسے الزامات میں حراست میں لیا ۔ لیکن جب پولیس اور سرکاری ادارے انہیں قانون کے مطابق مذید تفتیش کے لئے جسمانی ریمانڈ لینے کی غرض سے عدالت میں پیش کرتے رہے تو بعض عدالتیں بیشتر رہنماوں کو جسمانی ریمانڈ دینے کی بجائے ان کی ضمانتیں منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیتی رہیں ۔ اور پولیس انہیں دیگر مقدمات میں دوبارہ گرفتار کرتی رہی ۔ اور یوں پی ٹی آئی کے رہنماوں و قائدین کی گرفتاریوں اور ضمانتوں کا لامتناعی سلسلہ جاری ہے ۔ ایک بات یہاں بڑی اہم نظر آ رہی ہے کہ جب کوئی عدالت پی ٹی آئی کے رہنماوں کی ضمانتیں منظور کرتی ہیں تو ان حالات میں حکومت کے ذمے داروں کی طرف سے ان عدالتوں کے فیصلوں کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا بلکہ معزز ججوں پر پی ٹی آئی کے ہم خیال جج ہونے کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں ۔ ان حالات میں معزز ججوں کی طرف سے اپنے فیصلوں کے حق میں یہ باتیں بھی سامنے آ رہی ہے کہ وہ موجود ریکارڈ اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں قانون کے مطابق درست فیصلے کر رہے ہیں ۔کسی کو ان کے فیصلوں سے اتفاق نہیں تو قانون کے مطابق وہ فیصلوں کو اعلی عدلیہ کے سامنے چیلنج کرنے کا حق استعمال کر سکتے ہیں ۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ الزام لگانے والے ادارے کیا پی ٹی آئی کے رہنماوں پر درست الزام لگا کر انہیں حراست میں لیتے ہیں یا یہ سارا کھیل محض سیاسی پکڑ دھکڑ اور انتقامی کاروائیوں کا نتیجہ ہے ۔ کیونکہ اگر حکومتی مشینری جس کسی کو گرفتار کرتی ہے تو اس کے پاس ملزم کے خلاف ٹھوس دستاویزی ثبوت بھی موجود ہونے چاہئے تاکہ عدالت میں ملزمان کو پیش کرکے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے وقت وہ سارے ثبوت فراہم کئے جائیں ۔ موجودہ حالات و واقعات سے لگتا یہی ہے کہ پولیس ملزمان کو پکڑتے وقت تو بہت بڑی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن عدالت میں ان کے خلاف جسمانی ریمانڈ لینے کی استدعا کرتے وقت گرفتار ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم کرنے سے قاصر رہتی ہے ۔ اسی لئے مجھے آج پاکستانی فلم بول کا وہ ڈائیلاگ یاد آیا کہ کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو ۔ مطلب افراد کے خلاف ٹھوس ثبوت نہیں تو انہیں پکڑتے کیوں ہو ۔
سابق وزیر اعلی پنجاب چوھدری پرویز الہی کی گرفتاری کے بعد ان کے میڈیا ایڈوائزر اور لاہور فوٹو جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر چوھدری محمد اقبال کو بھی اینٹی کرپشن حکام نے حراست میں لیا ۔ چوھدری پرویز الہی کے بارے میں اینٹی کرپشن حکام کا دعوی ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی میں گریڈ 17 کی 12 اسامیوں پر غیر قانونی بھرتیوں اور ترقیاتی کاموں میں مبینہ کرپشن اور کک بیک کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ عدالت کی جانب سے پہلے دو مرتبہ ضمانت دینے اور اب جسمانی ریمانڈ پر ان کے حوالے نہ کرنے کے عدالتی فیصلے کو اینٹی کرپشن حکام نے اعلی عدلیہ کے سامنے چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ لگتا یہ ہے کہ اب اینٹی کرپشن حکام اعلی عدلیہ میں ٹھوس شواہد پیش کرکے چوھدری پرویز الہی کا جسمانی ریمانڈ لینے کی بھرپور جدوجہد کریں گے ۔ اینٹی کرپشن حکام کا موقف ہے کہ وہ سابق وزیر اعلی پنجاب چوھدری پرویز الہی کا موبائل فون سمیت بھرتی اسکینڈلز اور ترقیاتی کاموں میں حاصل کی گئی کرپشن کی رقم وصول کرنا چاہتے ہیں ۔ دوسری جانب چوھدری پرویز الہی نے اپنے خلاف ہونے والی تمام کاروائی کو انتقامی قرار دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ںگہران حکومت جتنے چاہئے مقدمات درج کر لے اور جتنی بار چاہے گرفتار کرے وہ ڈرتے ہیں نہ ڈریں گے ، جھکے ہیں نہ جھکے گئے اور پی ٹی آئی کو چھوڑا ہے نہ چھوڑیں گے ۔
آخر میں میں اپنی بات کو سمیٹے ہوئے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ نگہران حکومت ہو یا وفاقی حکومت وہ کرپشن ، بدعنوانی ،اختیارات سے تجاوز کے خلاف کسی بھی شہری یا سیاستدان کے خلاف اقدامات ضرور کرے لیکن اس وقت ایسا کرے جب اس کے پاس ٹھوس دستاویزی ثبوت موجود ہوں ۔ اور عوام کو حکومتی اقدامات سے سیاسی بو نہ آئے ۔ ورنہ عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اگر الزام ثابت نہیں کر سکتے تو پکڑتے کیوں ہو ۔